(Go: >> BACK << -|- >> HOME <<)

مندرجات کا رخ کریں

"عامر بن شراحیل شعبی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
 
(7 صارفین 31 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 110: سطر 110:
}}
}}


'''امام شعبی''' صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور عظیم محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں [[عامر بن شراحیل الشعبی]] کو ہی [[امام شعبی]] کہا جاتا ہے
'''امام شعبی''' ،[[صحاح ستہ]] کے ثقہ راوی اور عظیم محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ '''عامر بن شراحیل الشعبی''' کو ہی [[امام شعبی]] کہا جاتا ہے۔آپ نے [[109ھ]] میں وفات پائی۔


=== نام ونسب ===
== نام ونسب ==
عامر نام،ابو عمر کنیت،شعبی قبیلہ کی نسبت ہے لیکن شہرت کی وجہ سے اس نسبت نے لقب کی حیثیت اختیار کرلی ہے،یمن کے نامور حمیری خاندان میں حبان بن عمرو ایک مشہور اورتاریخی شخص گزرا ہے،یہ شخص یمن کی ایک پہاڑی ذوالشبین میں پیدا ہوا تھا اورمرنے کے بعد یہیں دفن ہوا، اس لیے وہ خود ذوالشعبین مشہور ہو گیا،اس کے بعد اس کی نسل میں بھی یہ نسبت قائم رہی، اس کی نسل کی ایک شاخ فتوحات اسلامی سے قبل سے ہمدان میں آباد تھی، پھر اسلامی عہد میں کوفہ میں بس گئی، یہ شاخ شعبی کہلاتی تھی،عامر بن شراحیل اسی شاخ سے تھے،حسان بن عمرو کے اوپر اس خاندان کا نسب نامہ یہ ہے، بنی حسان بن عمرو بن قیس بن معاویہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن غوث بن قطن بن عرب بن زبیر بن ایمن بن ہمیسع بن حمیر۔
عامر نام، ابو عمر کنیت ، شعبی قبیلہ کی نسبت ہے لیکن شہرت کی وجہ سے اس نسبت نے لقب کی حیثیت اختیار کر لی ہے، [[یمن]] کے نامور حمیری خاندان میں حبان بن عمرو ایک مشہور اور تاریخی شخص گذرا ہے، یہ شخص [[یمن]] کی ایک پہاڑی ذوالشعبین میں پیدا ہوا تھا اور مرنے کے بعد یہیں دفن ہوا، اس لیے وہ خود ذوالشعبین مشہور ہو گیا، اس کے بعد اس کی نسل میں بھی یہ نسبت قائم رہی، اس کی نسل کی ایک شاخ فتوحات اسلامی سے قبل سے [[ہمدان]] میں آباد تھی، پھر اسلامی عہد میں [[کوفہ]] میں بس گئی، یہ شاخ شعبی کہلاتی تھی،عامر بن شراحیل اسی شاخ سے تھے، حسان بن عمرو کے اوپر اس خاندان کا نسب نامہ یہ ہے، بنی حسان بن عمرو بن قیس بن معاویہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن غوث بن قطن بن عرب بن زبیر بن ایمن بن ہمیسع بن حمیر۔


=== پیدائش ===
=== پیدائش ===
ان کی ولادت [[عمر فاروق]] کے دور خلافت[[21ھ]] میں کوفہ میں ہوئی۔ اس لحاظ سے آپ تابعی تھے خود فرماتے کہ ’’میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی‘‘۔عامر الشعبی کے سنہ ولادت کے بارہ میں مختلف روایات ہیں،خود ان کا بیان ہے کہ وہ جنگ جلولاء کے سال پیدا ہوئ <ref>(ابن سعد:۱۷۲)</ref> ایک بیان یہ بھی ہے کہ ان کی ماں جلولاء کے قیدیوں میں تھیں جو ان کے والد شراحیل کے حصہ میں پڑی تھیں، اس حساب سے ان کی پیدائش سنہ ۱۴ میں ہوئی۔
ان کی ولادت [[عمر فاروق]] کے دور خلافت[[21ھ]] میں [[کوفہ]] میں ہوئی۔ اس لحاظ سے آپ [[تابعی]] تھے خود فرماتے کہ ’’میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی‘‘۔عامر الشعبی کے سنہ ولادت کے بارہ میں مختلف روایات ہیں،خود ان کا بیان ہے کہ وہ [[جنگ جلولا]]ء کے سال پیدا ہوئے، <ref>(ابن سعد:172)</ref> ایک بیان یہ بھی ہے کہ ان کی ماں [[جنگ جلولا|جلولاء]] کے قیدیوں میں تھیں جو ان کے والد شراحیل کے حصہ میں آئی تھیں، اس حساب سے ان کی پیدائش سنہ [[14ھ]] میں ہوئی۔


=== تعلیم ===
=== تعلیم ===
عامر کے ہوش سنبھالنے کے وقت صحابہ کرام کی بہت بڑی جماعت موجود تھی اوران کی بو د وباش بھی ایسے مرکزی مقام پر تھی،جہاں بہت سے صحابہ اقامت پذیر تھے اور ان کی آمد ورفت رہتی تھی،اس لیے انہیں پانچ سو صحابہ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، ان میں اڑتالیس سے فیض اٹھایا تھا <ref>(تہذیب التہذیب:۵/۶۷)</ref> حبرالامۃ عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں آٹھ دس مہینہ مستقل قیام کرکے ان کے کمالات سے فیضیاب ہوئے تھے <ref>(ابن سعد:۶/۱۷۲)</ref> ان بزرگوں کے فیض نے ان کو امام عصر بنادیا۔
عامر کے ہوش سنبھالنے کے وقت [[صحابی|صحابہ کرام]] کی بہت بڑی جماعت موجود تھی اور ان کی بو د وباش بھی ایسے مرکزی مقام پر تھی، جہاں بہت سے صحابہ اقامت پزیر تھے اور ان کی آمد ورفت رہتی تھی،اس لیے انھیں پانچ سو صحابہ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، ان میں اڑتالیس سے فیض اٹھایا تھا <ref>(تہذیب التہذیب:5/67)</ref> حبرالامۃ [[عبد اللہ بن عمر|عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ]] کی خدمت میں آٹھ دس مہینہ مستقل قیام کرکے ان کے کمالات سے فیض یاب ہوئے تھے <ref>(ابن سعد:6/172)</ref> ان بزرگوں کے فیض نے ان کو امام عصر بنا دیا۔


=== مشائخ و اساتذہ ===
=== مشائخ و اساتذہ ===
امام شعبی احادیث نبوی کے جلیل القدر حافظ تھے۔ صحابہ کرام کی شاگردی سے بھی مالا مال فرما دیا۔ جن حضرات سے آپ نے روایت حدیث کی ،ان میں سے چند ایک کے اسماء گرامی یہ ہیں:
امام شعبی احادیث نبوی کے جلیل القدر حافظ تھے۔ صحابہ کرام کی شاگردی سے بھی مالا مال فرما دیا۔ جن حضرات سے آپ نے روایت حدیث کی، ان میں سے چند ایک کے اسماء گرامی یہ ہیں:
* [[علی بن ابی طالب|علی المرتضیٰ]]
* [[علی بن ابی طالب|علی المرتضیٰ]]
* [[سعد بن ابی وقاص]]* [[ابوہریرہ]]* [[عبداللہ بن عمر]]
* [[سعد بن ابی وقاص]]
* [[ابوہریرہ]]
* [[عبداللہ بن عمر]]
* [[عبداللہ بن عباس]]
* [[عبداللہ بن عباس]]
* [[عبداللہ بن عمرو]]
* [[عبداللہ بن عمرو]]
* [[جابر بن عبداللہ]]* [[انس بن مالک]]
* [[جابر بن عبداللہ]]
* [[انس بن مالک]]
* [[ابوموسٰی اشعری|ابوموسیٰ الاشعری]]
* [[ابوموسٰی اشعری|ابوموسیٰ الاشعری]]
* [[عائشہ صدیقہ]]<ref>تذکرۃ الحفاظ ج1ص81</ref>
* [[عائشہ صدیقہ]]<ref>تذکرۃ الحفاظ، ج 1، ص 81</ref>


=== وسعت علم ===
=== وسعت علم ===
* مَا سَمِعْتُ مُنْذُ عِشْرِيْنَ سَنَةً رَجُلاً يُحَدِّثُ بِحَدِيْثٍ إِلاَّ أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْهُ ،<ref name="حوالہ 1">سیر اعلام النبلاء ج4ص485</ref>
* مَا سَمِعْتُ مُنْذُ عِشْرِيْنَ سَنَةً رَجُلاً يُحَدِّثُ بِحَدِيْثٍ إِلاَّ أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْهُ ،<ref name="حوالہ 1">سیر اعلام النبلاء ج4ص485</ref> یعنی میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی کہ اس سے بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں۔
* کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی کہ اس سے بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں۔* امام ابن ابی لیلیٰ امام شعبی اور ابراہیم نخعی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
* امام ابن ابی لیلیٰ ، امام شعبی اور [[ابراہیم نخعی]] کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
* كَانَ إِبْرَاهِيْمُ صَاحِبَ قِيَاسٍ، وَالشَّعْبِيُّ صَاحِبَ آثَارٍ ،<ref name="حوالہ 1"/>
* كَانَ إِبْرَاهِيْمُ صَاحِبَ قِيَاسٍ، وَالشَّعْبِيُّ صَاحِبَ آثَارٍ ،<ref name="حوالہ 1"/> کہ امام شعبی [[محدث]] ہیں اور [[ابراہیم نخعی]] [[مجتہد]] ہیں۔
* [[علم حدیث]] کے علاوہ دوسرے علوم پر بھی امام شعبی کو دسترس حاصل تھی۔ قرآن مجید کے اتنے زبردست قاری تھے کہ ”زعیم القراء“ کہلاتے تھے۔
* کہ امام شعبی محدث ہیں اور ابراہیم نخعی مجتہد ہیں۔
* امام شعبی کا قوت حافظہ باکمال تھا۔ چنانچہ آپ کا اپنا بیان ہے۔
* علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم پر بھی امام شعبی کو دسترس حاصل تھی۔ قرآن مجید کے اتنے زبردست قاری تھے کہ ”زعیم القراء“ کہلاتے تھے۔
* مَا كَتَبْتُ سَوْدَاءَ فِي بَيْضَاءَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَلاَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِحَدِيْثٍ قَطُّ إِلاَّ حَفِظْتُهُ <ref>تذکرۃ الحفاظ ج1ص85</ref>: کہ میں نے آج تک [[کاغذ]] پر کچھ نہیں لکھا، جب کوئی شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تو مجھے حفظ ہو جاتی تھی، مجھے کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہ اسے میرے سامنے دوبارہ پڑھے۔
* امام شعبی قوت حافظہ باکمال تھا۔ چنانچہ آپ کا اپنا بیان ہے۔
* مَا كَتَبْتُ سَوْدَاءَ فِي بَيْضَاءَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَلاَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِحَدِيْثٍ قَطُّ إِلاَّ حَفِظْتُهُ <ref>تذکرۃ الحفاظ ج1ص85</ref>* کہ میں نے آج تک کاغذ پر کچھ نہیں لکھا، جب کوئی شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تو مجھے حفظ ہوجاتی تھی،مجھے کبھی ضرورت محسوس نہیں ہو ئی کہ وہ اسے میرے سامنے دوبارہ پڑھے۔


=== فضل وکمال ===
=== فضل وکمال ===
علمی لحاظ سے وہ اپنے عہد کے امام تھے،حافظ ذہبی ان کو امام ،حافظ ذہبی ان کو امام، حافظ،فقیہ اور متقن <ref>(تذکرۃ الحفاظ:۱/۶۹)</ref> اور ابن عماد حنبلی امام البحر العلامہ لکھتے ہیں <ref>(شذرات الذہب :۱/۱۲۶)</ref> انہیں جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا، ابو اسحق الجبال کا بیان ہے کہ شعبی جملہ علوم میں یگانہ عصر تھے قرآن ،حدیث،فقہ،مغازی،ریاضی اورادب وشاعری سب میں انہیں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔
علمی لحاظ سے وہ اپنے عہد کے امام تھے، [[ذہبی|حافظ ذہبی]] ان کو امام ، حافظ [[شمس الدین ذہبی|ذہبی]] ان کو امام، حافظ ،فقیہ اور متقی <ref>(تذکرۃ الحفاظ:1/69)</ref> اور [[ابن عماد حنبلی]] امام البحر العلامہ لکھتے ہیں <ref>(شذرات الذہب :1/126)</ref> انھیں جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا، ابو اسحق الجبال کا بیان ہے کہ شعبی جملہ علوم میں یگانہ عصر تھے، [[قرآن]] ،[[حدیث]]، [[فقہ]]، [[مغازی النبی|مغازی]]، [[ریاضی]] اور [[ادب]] و [[شاعری]] سب میں انھیں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔


=== قرآن ===
=== قرآن ===
قرآن کے اتنے ممتاز قاری تھے کہ زعیم القراء کہلاتے تھے <ref>(تذکرہ الحفاظ:۱/۷۳)</ref>تفسیر میں بھی انہیں پورا ادرک تھا،لیکن احتیاط کی وجہ سے انہوں نے مفسر کی حیثیت سے کوئی شہرت نہیں حاصل کی وہ تفسیر قرآن میں بڑے محتاط تھے،ہر شخص کو اس کا مجاز نہیں سمجھتے تھے،زکریا بن ابی زائد ہ کا بیان ہے کہ شعبی ابو صالح کے پاس سے گزرتے تو ان کے کان پکڑ کر کہتے کہ تم قرآن نہیں پڑھتےاور اس کی تفسیر بیان کرتے ہو۔
قرآن کے اتنے ممتاز قاری تھے کہ زعیم القراء کہلاتے تھے <ref>(تذکرہ الحفاظ:1/73)</ref>[[تفسیر قرآن|تفسیر]] میں بھی انھیں پورا ادرک تھا، لیکن احتیاط کی وجہ سے انھوں نے مفسر کی حیثیت سے کوئی شہرت نہیں حاصل کی وہ تفسیر قرآن میں بڑے محتاط تھے، ہر شخص کو اس کا مجاز نہیں سمجھتے تھے، [[زکریا بن ابی زائدہ]] کا بیان ہے کہ شعبی ابو صالح کے پاس سے گزرتے تو ان کے کان پکڑ کر کہتے کہ تم قرآن نہیں پڑھتے اور اس کی تفسیر بیان کرتے ہو۔ <ref>(ایضاً:72)</ref>
<ref>(ایضاً:۷۲)</ref>


=== حدیث ===
=== حدیث ===
حدیث کے جلیل القدر حافظ ؛بلکہ امام العصر تھے،انہوں نے صحابۂ کرام اور تابعین کی بڑی جماعت سے سماع حدیث کیا تھا،صحابہ میں حضرت علیؓ،سعد بن ابی وقاصؓ،سعید ابن زیدؓ، زید بن ثابتؓ،قیس بن عبادہؓ، قرظہ بن کعبؓ ،عبادہ بن صامتؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، ابو مسعود انصاریؓ، ابو ہریرہؓ،مغیرہ بن شعبہؓ،نعمان بن بشیرؓ،ابو ثعلبہ خشنیؓ ،جریر بن عبداللہ بجلیؓ،بریدہ ابن حصیبؓ،براء بن عازبؓ،معاویہؓ،جابر بن عبداللہؓ،جابر بن سمرہؓ، حارث بن مالکؓ حبشی ابن جنادہ،حسین بن علیؓ، زید بن ارقمؓ،ضحاک بن قیسؓ،سمرہ بن جندبؓ،عامر بن شہدؓ،عبداللہ بن عمرؓ،ابن عباسؓ،ابن زبیرؓ، ابن عمرو بن العاصؓ، عبداللہ بن مطیعؓ،عبدالرحمن بن سمرہؓ، عدی بن حاتمؓ،عروہ بن جعدالعبارقیؓ،عروہ بن مضرسؓ ،عمرو بن امیہؓ،عمرو بن حریث ،عمران بن حصینؓ، عوف بن مالکؓ،عیاض اشعرؓ،کعب بن عجرہؓ، محمد بن سیفیؓ،مقدام بن معدیکربؓ،وابصہ بن معبدؓ،ابی جیرہ بن ضحاکؓ،ابو سریحہ ؓ غفاری،ابو سعید خدریؓ اورصحابیات میں ام سلمہؓ،میمونہ بنت حارثؓ، اسماء بنت انیسؓ،فاطمہ بنت قیسؓ اور ام ہانیؓ وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا،ان میں سے بعض مرسل روایات ہیں،صحابہ کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی تعداد سے استفادہ کیا تھا۔
حدیث کے جلیل القدر حافظ ؛بلکہ امام العصر تھے،انھوں نے صحابۂ کرام اور تابعین کی بڑی جماعت سے سماع حدیث کیا تھا، صحابہ میں حضرت [[علی ابن ابی طالب|علیؓ]]، [[سعد بن ابی وقاص|سعد بن ابی وقاصؓ]]، [[سعید بن زید|سعید ابن زیدؓ]]، [[زید بن ثابت|زید بن ثابتؓ]]، قیس بن عبادہؓ، [[قرظہ بن کعب خزرجی|قرظہ بن کعبؓ]] ،[[عبادہ بن صامت|عبادہ بن صامتؓ]]، [[ابو موسیٰ اشعری|ابو موسیٰ اشعریؓ]]، [[ابو مسعود بدری|ابو مسعود انصاریؓ]]، [[ابو ہریرہ|ابو ہریرہؓ]]، [[مغیرہ ابن شعبہ|مغیرہ بن شعبہؓ]]، [[نعمان بن بشیر|نعمان بن بشیرؓ]]، ابو ثعلبہ خشنیؓ ،[[جریر بن عبداللہ البجلی|جریر بن عبداللہ بجلیؓ]]، [[بریدہ بن حصیب|بریدہ ابن حصیبؓ]]، [[براء بن عازب|براء بن عازبؓ]]، [[معاویہ بن ابو سفیان|امیر معاویہؓ]]، [[جابر بن عبد اللہ|جابر بن عبداللہؓ]]، جابر بن سمرہؓ، [[حارث بن مالک|حارث بن مالکؓ]] ، حبشی ابن جنادہ، [[حسین بن علی|حسین بن علیؓ]]، [[زید بن ارقم|زید بن ارقمؓ]]، [[ضحاک بن قيس|ضحاک بن قیسؓ]]، [[سمرہ بن جندب|سمرہ بن جندبؓ]]، عامر بن شہدؓ، [[عبد اللہ بن عمر|عبداللہ بن عمرؓ]]، [[عبد اللہ بن عباس|ابن عباسؓ]]، [[ابن زبیر|ابن زبیرؓ]]، [[عبد اللہ بن عمرو بن العاص|ابن عمرو بن العاصؓ]]، عبد اللہ بن مطیعؓ، [[عبدالرحمن بن سمرہ|عبدالرحمن بن سمرہؓ]]، [[عدی بن حاتم|عدی بن حاتمؓ]]، [[عروہ بارقی|عروہ بن جعدالعبارقیؓ]]، عروہ بن مضرسؓ ، [[عمرو بن امیہ|عمرو بن امیہؓ]]، عمرو بن حریث ،[[عمران بن حصین|عمران بن حصینؓ]]، عوف بن مالکؓ، عیاض اشعرؓ، [[کعب بن عجرہ|کعب بن عجرہؓ]]، محمد بن سیفیؓ، مقدام بن معدیکربؓ، وابصہ بن معبدؓ، ابی جیرہ بن ضحاکؓ، ابو سریحہ ؓ غفاری، [[ابوسعید خدری|ابو سعید خدریؓ]] اور صحابیات میں [[ام سلمہ|ام سلمہؓ]]، [[میمونہ بنت حارث|میمونہ بنت حارثؓ]]، اسماء بنت انیسؓ،[[فاطمہ بنت قیس|فاطمہ بنت قیسؓ]] اور [[ام ہانی بنت ابی طالب|ام ہانیؓ]] وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا،ان میں سے بعض مرسل روایات ہیں، صحابہ کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی تعداد سے استفادہ کیا تھا۔
<ref>(تہذیب التہذیب:۵/۶۲)</ref>
<ref>(تہذیب التہذیب:5/62)</ref>


=== تلاش حدیث میں مشقت ===
=== تلاش حدیث میں مشقت ===
حدیث کا انہیں خاص ذوق تھا اور اس کو انہوں نے بڑی مشقت سے حاصل کیا تھا، ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اتنا علم کہا ں سے حاصل کیا،انہوں نے جواب دیا،غم واندوہ کو بھلا کر ملکوں کی سیاحت کرکے گدھوں کی طاقت برداشت اورکوؤں کی سحری خیزی کے ذریعہ۔
[[حدیث]] کا انھیں خاص ذوق تھا اور اس کو انھوں نے بڑی مشقت سے حاصل کیا تھا، ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اتنا علم کہا ں سے حاصل کیا، انھوں نے جواب دیا، غم وا ندوہ کو بھُلا کر ملکوں کی سیاحت کرکے [[گدھا|گدھوں]] کی طاقت، برداشت اور کوؤں کی سحری خیزی کے ذریعہ۔ <ref>(تذکرۃ الحفاظ:1/171)</ref>
<ref>(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱)</ref>


=== قوت حافظہ ===
=== قوت حافظہ ===
حافظہ اتنا قوی تھا کہ کبھی کاغذ قلم اور دوات کے شرمندۂ احسان نہیں ہوئے ،ایک مرتبہ جو حدیث سن لی وہ ہمشہ کے لیے سینہ میں محفوظ ہوگئی،ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی بیاض کو کتابت سے سیاہ نہیں کیا، یعنی کبھی لکھا نہیں،جب کسی نے کوئی حدیث سنائی تو وہ میرے سینہ میں محفوظ ہوگئی اور اس کے دوبارہ سننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
حافظہ اتنا قوی تھا کہ کبھی کاغذ قلم اور دوات کے شرمندۂ احسان نہیں ہوئے ،ایک مرتبہ جو حدیث سن لی وہ ہمشہ کے لیے سینہ میں محفوظ ہو گئی، ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی [[بیاض]] کو کتابت سے [[سیاہی|سیاہ]] نہیں کیا، یعنی کبھی لکھا نہیں، جب کسی نے کوئی حدیث سنائی تو وہ میرے سینہ میں محفوظ ہو گئی اور اس کے دوبارہ سننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ <ref>(تذکرۃ الحفاظ:1/171)</ref>
<ref>(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱)</ref>


=== اخذ حدیث میں احتیاط ===
=== اخذ حدیث میں احتیاط ===
لیکن دوسروں سے حدیثوں کے لینے میں وہ بڑے محتاط تھے ان ہی لوگوں سے احادیث لیتے تھے جو علم کے ساتھ عقل و تقوی کے زیور سے آراستہ ہوتے،اس میں ان کا اصول یہ تھا کہ علم اسی شخص سے حاصل کرنا چاہئیے ،جس میں زہد وعبادت اورعقل ودانش دونوں جمع ہوں،تنہا عقل یا تنہا تقویٰ رکھنے والا علم کی حقیقت کو نہیں پاسکتا۔
لیکن دوسروں سے حدیثوں کے لینے میں وہ بڑے محتاط تھے انھی لوگوں سے احادیث لیتے تھے جو علم کے ساتھ عقل و تقوی کے زیور سے آراستہ ہوتے، اس میں ان کا اصول یہ تھا کہ علم اسی شخص سے حاصل کرنا چاہیے ،جس میں زہد و عبادت اور عقل و [[دانش]] دونوں جمع ہوں، تنہا [[عقل]] یا تنہا [[تقویٰ]] رکھنے والا علم کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ <ref>(تذکرہ الحفاظ:1/73)</ref>
<ref>(تذکرہ الحفاظ:۱/۷۳)</ref>


=== حدیث میں وسعت علم ===
=== حدیث میں وسعت علم ===
حدیث میں ان کے علم کا دائرہ نہایت وسیع تھا، ان کا بیان ہے کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی جس سے میں بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں <ref>(ایضاً:۷۷)</ref> اہل حجاز، بصرہ اورکوفہ تینوں علمی مرکزوں کے محدثین کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی حافظ نہ تھا (ایضا:۷۴) سنن کے بھی بڑے عالم تھے مکحول کابیان ہے کہ میں نے شعبی سے زیادہ سنتِ ماضیہ کا عالم نہیں دیکھا <ref>(ابن سعد:۱۷۷)</ref> ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے کہ شعبی صاحب آثار تھے اورابراہیم صاحب قیاس۔
حدیث میں ان کے علم کا دائرہ نہایت وسیع تھا، ان کا بیان ہے کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی جس سے میں بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں <ref>(ایضاً:77)</ref> اہل [[حجاز]]، [[بصرہ]] اور [[کوفہ]] تینوں علمی مرکزوں کے محدثین کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی حافظ نہ تھا <ref>{{Cite book|title=(ایضا:۷۴)}}</ref> سنن کے بھی بڑے عالم تھے، [[مکحول دمشقی|مکحول]] کابیان ہے کہ میں نے شعبی سے زیادہ سنتِ ماضیہ کا عالم نہیں دیکھا <ref>(ابن سعد:177)</ref> ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے کہ شعبی صاحب آثار تھے اور ابراہیم صاحب قیاس۔<ref>(تذکرۃ الحفاظ:1/71)</ref>
<ref>(تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۱)</ref>


=== احتیاط فی الحدیث ===
=== احتیاط فی الحدیث ===
لیکن اس وسعتِ علم کے باوجود وہ خود روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے،زیادہ روایت کرنا پسند نہ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ گذشتہ صلحاء زیادہ حدیثیں بیان کرنا برا سمجھتے تھے،اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا، تو میں صرف محدثین کی متفقہ حدیثیں بیان کرتا۔
لیکن اس وسعتِ علم کے باوجود وہ خود روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے، زیادہ روایت کرنا پسند نہ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ گذشتہ صلحاء زیادہ حدیثیں بیان کرنا برا سمجھتے تھے،اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا، تو میں صرف محدثین کی متفقہ حدیثیں بیان کرتا۔ <ref>(ایضاً:172)</ref>
<ref>(ایضاً:۱۷۲)</ref>


=== روایت بالمعنی ===
=== روایت بالمعنی ===
لیکن روایت بالمعنی کو خلاف احتیاط نہیں سمجھتے تھے،یعنی روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے،ابن عون کا بیان ہے کہ شعبی حدیثیں بالمعنی روایت کرتے تھے۔
لیکن روایت بالمعنی کو خلاف احتیاط نہیں سمجھتے تھے، یعنی روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے، ابن عون کا بیان ہے کہ شعبی حدیثیں بالمعنی روایت کرتے تھے۔
<ref>(ابن سعد:۶/۱۷۴)</ref>
<ref>(ابن سعد:6/174)</ref>


=== فقہ ===
=== فقہ ===
اگرچہ ان کو جملہ علوم وفنون میں یکساں درک حاصل تھا،لیکن ان کا خاص اور امتیازی فن فقہ تھا، اس میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ سمجھے جاتے تھے،ابو الحسن کہتے تھے کہ میں نے کسی کو شعبی سے بڑا فقیہ نہیں پایا،بعض علماء تو انہیں اس عہد کے کل آئمہ پر ترجیح دیتے تھے،ابومجلز کہتے تھے کہ میں سعید بن مسیب،طاؤس عطاء حسن بصری اورابن سیرین کسی کو بھی شعبی سے بلند مرتبہ فقیہ نہیں پایا۔
اگرچہ ان کو جملہ علوم وفنون میں یکساں درک حاصل تھا، لیکن ان کا خاص اور امتیازی فن فقہ تھا، اس میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ سمجھے جاتے تھے،ابو الحسن کہتے تھے کہ میں نے کسی کو شعبی سے بڑا فقیہ نہیں پایا،بعض علما تو انھیں اس عہد کے کل ائمہ پر ترجیح دیتے تھے،ابومجلز کہتے تھے کہ میں [[سعید بن مسیب]]، [[طاؤس بن کیسان|طاؤس]] ، [[عطاء بن ابی رباح|عطاء]] [[حسن بصری]] اور [[ابن سیرین]] کسی کو بھی شعبی سے بلند مرتبہ فقیہ نہیں پایا۔
<ref>(تذکرہ الحفاظ:۱/۷۰)</ref>
<ref>(تذکرہ الحفاظ:1/70)</ref>
ابراہیم نخعی جو خود بہت بڑے فقیہ تھے،ان کے تفقہ کے اتنے قائل تھے کہ جومسئلہ ان کو نہ معلوم ہوتا اس کے سائل کو شعبی کے پاس بھیج دیتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، انہوں نے لا علمی ظاہر کی،اسی درمیان میں شعبی گزرتے ہوئے دکھائی دئیے،ابراہیم نخعی نے مستفتی سے کہا ان شیخ کے پاس جاکر پوچھو اوروہ جو جواب دین اسے مجھے بتاؤ ؛چنانچہ سائل نے جاکر ان سے دریافت کیا،انہوں بھی لا علمی ظاہر کی،نخعی کو یہ جواب معلوم ہوا تو انہوں نے کہا واللہ یہ فقہ ہے۔
ابراہیم نخعی جو خود بہت بڑے فقیہ تھے،ان کے تفقہ کے اتنے قائل تھے کہ جومسئلہ ان کو نہ معلوم ہوتا اس کے سائل کو شعبی کے پاس بھیج دیتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، انھوں نے لا علمی ظاہر کی،اسی درمیان میں شعبی گزرتے ہوئے دکھائی دیے، [[ابراہیم نخعی]] نے مستفتی سے کہا ان شیخ کے پاس جاکر پوچھو اور وہ جو جواب دین اسے مجھے بتاؤ ؛چنانچہ سائل نے جاکر ان سے دریافت کیا،انھوں بھی لا علمی ظاہر کی، نخعی کو یہ جواب معلوم ہوا تو انھوں نے کہا واللہ یہ فقہ ہے۔
<ref>(ابن سعد:۶/۱۷۴)</ref>
<ref>(ابن سعد:6/174)</ref>


ان کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں جو علوم نبوی کے حقیقی وارث تھے وہ مسندِ افتا پر بیٹھ گئےتھے،ابوبکر ندلی کا بیان ہے کہ ابن سیرین نے مجھے ہدایت کی تھی کہ شعبی کے دامن سے وابستہ رہو؛کیونکہ وہ صحابہ کی بڑی تعداد کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے۔
ان کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں جو علوم نبوی کے حقیقی وارث تھے وہ مسندِ افتا پر بیٹھ گئے تھے،ابوبکر ندلی کا بیان ہے کہ ابن سیرین نے مجھے ہدایت کی تھی کہ شعبی کے دامن سے وابستہ رہو؛کیونکہ وہ صحابہ کی بڑی تعداد کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے۔
<ref>(تذکرہ الحفاظ:۱/۱۷۱)</ref>
<ref>(تذکرہ الحفاظ:1/171)</ref>


=== وفات ===

== وفات ==
امام شعبی کی وفات کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔<br/>
امام شعبی کی وفات کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔<br/>
1: [[109ھ]]، 2: [[106ھ]]، 3: [[103ھ]]<ref>سیر اعلام النبلاء ج4ص492</ref>
1: [[109ھ]]، 2: [[106ھ]]، 3: [[103ھ]]<ref>سیر اعلام النبلاء ج4ص492</ref>

== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{تابعین

}}
{{حوالہ جات}}
{{تابعین میں محدثین کے طبقات}}
[[زمرہ:106ھ کی وفیات]]
[[زمرہ:106ھ کی وفیات]]
[[زمرہ:محدثین]]
[[زمرہ:محدثین]]
[[زمرہ:اموی دور کے علما]]
[[زمرہ:مسلمان علما]]
[[زمرہ:تابعی راویان حدیث]]
[[زمرہ:خلافت راشدہ کی شخصیات]]
[[زمرہ:سنی ائمہ]]
[[زمرہ:عرب مسلم شخصیات]]
[[زمرہ:اسلام کے مسلمان مورخین]]
[[زمرہ:تابعین]]
[[زمرہ:ساتویں صدی کے مسلمان]]
[[زمرہ:علمائے اسلام]]
[[زمرہ:سنی علماء اسلام]]
[[زمرہ:ویکی ڈیٹا سے مطابقت رکھنے والی مختصر تفصیل]]
[[زمرہ:آٹھویں صدی کے مسلم الٰہیات دان]]
[[زمرہ:آٹھویں صدی کی اموی شخصیات]]
[[زمرہ:علمائے اہلسنت]]

حالیہ نسخہ بمطابق 05:50، 27 مئی 2024ء

عامر بن شراحیل شعبی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 641ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 723ء (81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
قاضی   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
717  – 720 
در کوفہ  
ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری  
عبد الملک بن عمیر  
عملی زندگی
استاد عبد اللہ بن مسعود ،  انس بن مالک ،  ابو عبدالرحمٰن السلمی کوفی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد قتادہ بن دعامہ ،  ابو اسحاق شیبانی ،  توبہ عنبری ،  ابو حنیفہ   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ ،  مورخ ،  قاضی ،  سفیر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شریعت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

امام شعبی ،صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور عظیم محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عامر بن شراحیل الشعبی کو ہی امام شعبی کہا جاتا ہے۔آپ نے 109ھ میں وفات پائی۔

نام ونسب[ترمیم]

عامر نام، ابو عمر کنیت ، شعبی قبیلہ کی نسبت ہے لیکن شہرت کی وجہ سے اس نسبت نے لقب کی حیثیت اختیار کر لی ہے، یمن کے نامور حمیری خاندان میں حبان بن عمرو ایک مشہور اور تاریخی شخص گذرا ہے، یہ شخص یمن کی ایک پہاڑی ذوالشعبین میں پیدا ہوا تھا اور مرنے کے بعد یہیں دفن ہوا، اس لیے وہ خود ذوالشعبین مشہور ہو گیا، اس کے بعد اس کی نسل میں بھی یہ نسبت قائم رہی، اس کی نسل کی ایک شاخ فتوحات اسلامی سے قبل سے ہمدان میں آباد تھی، پھر اسلامی عہد میں کوفہ میں بس گئی، یہ شاخ شعبی کہلاتی تھی،عامر بن شراحیل اسی شاخ سے تھے، حسان بن عمرو کے اوپر اس خاندان کا نسب نامہ یہ ہے، بنی حسان بن عمرو بن قیس بن معاویہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن غوث بن قطن بن عرب بن زبیر بن ایمن بن ہمیسع بن حمیر۔

پیدائش[ترمیم]

ان کی ولادت عمر فاروق کے دور خلافت21ھ میں کوفہ میں ہوئی۔ اس لحاظ سے آپ تابعی تھے خود فرماتے کہ ’’میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی‘‘۔عامر الشعبی کے سنہ ولادت کے بارہ میں مختلف روایات ہیں،خود ان کا بیان ہے کہ وہ جنگ جلولاء کے سال پیدا ہوئے، [1] ایک بیان یہ بھی ہے کہ ان کی ماں جلولاء کے قیدیوں میں تھیں جو ان کے والد شراحیل کے حصہ میں آئی تھیں، اس حساب سے ان کی پیدائش سنہ 14ھ میں ہوئی۔

تعلیم[ترمیم]

عامر کے ہوش سنبھالنے کے وقت صحابہ کرام کی بہت بڑی جماعت موجود تھی اور ان کی بو د وباش بھی ایسے مرکزی مقام پر تھی، جہاں بہت سے صحابہ اقامت پزیر تھے اور ان کی آمد ورفت رہتی تھی،اس لیے انھیں پانچ سو صحابہ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، ان میں اڑتالیس سے فیض اٹھایا تھا [2] حبرالامۃ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آٹھ دس مہینہ مستقل قیام کرکے ان کے کمالات سے فیض یاب ہوئے تھے [3] ان بزرگوں کے فیض نے ان کو امام عصر بنا دیا۔

مشائخ و اساتذہ[ترمیم]

امام شعبی احادیث نبوی کے جلیل القدر حافظ تھے۔ صحابہ کرام کی شاگردی سے بھی مالا مال فرما دیا۔ جن حضرات سے آپ نے روایت حدیث کی، ان میں سے چند ایک کے اسماء گرامی یہ ہیں:

وسعت علم[ترمیم]

  • مَا سَمِعْتُ مُنْذُ عِشْرِيْنَ سَنَةً رَجُلاً يُحَدِّثُ بِحَدِيْثٍ إِلاَّ أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْهُ ،[5] یعنی میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی کہ اس سے بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں۔
  • امام ابن ابی لیلیٰ ، امام شعبی اور ابراہیم نخعی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
  • كَانَ إِبْرَاهِيْمُ صَاحِبَ قِيَاسٍ، وَالشَّعْبِيُّ صَاحِبَ آثَارٍ ،[5] کہ امام شعبی محدث ہیں اور ابراہیم نخعی مجتہد ہیں۔
  • علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم پر بھی امام شعبی کو دسترس حاصل تھی۔ قرآن مجید کے اتنے زبردست قاری تھے کہ ”زعیم القراء“ کہلاتے تھے۔
  • امام شعبی کا قوت حافظہ باکمال تھا۔ چنانچہ آپ کا اپنا بیان ہے۔
  • مَا كَتَبْتُ سَوْدَاءَ فِي بَيْضَاءَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَلاَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِحَدِيْثٍ قَطُّ إِلاَّ حَفِظْتُهُ [6]: کہ میں نے آج تک کاغذ پر کچھ نہیں لکھا، جب کوئی شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تو مجھے حفظ ہو جاتی تھی، مجھے کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہ اسے میرے سامنے دوبارہ پڑھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

علمی لحاظ سے وہ اپنے عہد کے امام تھے، حافظ ذہبی ان کو امام ، حافظ ذہبی ان کو امام، حافظ ،فقیہ اور متقی [7] اور ابن عماد حنبلی امام البحر العلامہ لکھتے ہیں [8] انھیں جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا، ابو اسحق الجبال کا بیان ہے کہ شعبی جملہ علوم میں یگانہ عصر تھے، قرآن ،حدیث، فقہ، مغازی، ریاضی اور ادب و شاعری سب میں انھیں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔

قرآن[ترمیم]

قرآن کے اتنے ممتاز قاری تھے کہ زعیم القراء کہلاتے تھے [9]تفسیر میں بھی انھیں پورا ادرک تھا، لیکن احتیاط کی وجہ سے انھوں نے مفسر کی حیثیت سے کوئی شہرت نہیں حاصل کی وہ تفسیر قرآن میں بڑے محتاط تھے، ہر شخص کو اس کا مجاز نہیں سمجھتے تھے، زکریا بن ابی زائدہ کا بیان ہے کہ شعبی ابو صالح کے پاس سے گزرتے تو ان کے کان پکڑ کر کہتے کہ تم قرآن نہیں پڑھتے اور اس کی تفسیر بیان کرتے ہو۔ [10]

حدیث[ترمیم]

حدیث کے جلیل القدر حافظ ؛بلکہ امام العصر تھے،انھوں نے صحابۂ کرام اور تابعین کی بڑی جماعت سے سماع حدیث کیا تھا، صحابہ میں حضرت علیؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، سعید ابن زیدؓ، زید بن ثابتؓ، قیس بن عبادہؓ، قرظہ بن کعبؓ ،عبادہ بن صامتؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، ابو مسعود انصاریؓ، ابو ہریرہؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، نعمان بن بشیرؓ، ابو ثعلبہ خشنیؓ ،جریر بن عبداللہ بجلیؓ، بریدہ ابن حصیبؓ، براء بن عازبؓ، امیر معاویہؓ، جابر بن عبداللہؓ، جابر بن سمرہؓ، حارث بن مالکؓ ، حبشی ابن جنادہ، حسین بن علیؓ، زید بن ارقمؓ، ضحاک بن قیسؓ، سمرہ بن جندبؓ، عامر بن شہدؓ، عبداللہ بن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابن زبیرؓ، ابن عمرو بن العاصؓ، عبد اللہ بن مطیعؓ، عبدالرحمن بن سمرہؓ، عدی بن حاتمؓ، عروہ بن جعدالعبارقیؓ، عروہ بن مضرسؓ ، عمرو بن امیہؓ، عمرو بن حریث ،عمران بن حصینؓ، عوف بن مالکؓ، عیاض اشعرؓ، کعب بن عجرہؓ، محمد بن سیفیؓ، مقدام بن معدیکربؓ، وابصہ بن معبدؓ، ابی جیرہ بن ضحاکؓ، ابو سریحہ ؓ غفاری، ابو سعید خدریؓ اور صحابیات میں ام سلمہؓ، میمونہ بنت حارثؓ، اسماء بنت انیسؓ،فاطمہ بنت قیسؓ اور ام ہانیؓ وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا،ان میں سے بعض مرسل روایات ہیں، صحابہ کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی تعداد سے استفادہ کیا تھا۔ [11]

تلاش حدیث میں مشقت[ترمیم]

حدیث کا انھیں خاص ذوق تھا اور اس کو انھوں نے بڑی مشقت سے حاصل کیا تھا، ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اتنا علم کہا ں سے حاصل کیا، انھوں نے جواب دیا، غم وا ندوہ کو بھُلا کر ملکوں کی سیاحت کرکے گدھوں کی طاقت، برداشت اور کوؤں کی سحری خیزی کے ذریعہ۔ [12]

قوت حافظہ[ترمیم]

حافظہ اتنا قوی تھا کہ کبھی کاغذ قلم اور دوات کے شرمندۂ احسان نہیں ہوئے ،ایک مرتبہ جو حدیث سن لی وہ ہمشہ کے لیے سینہ میں محفوظ ہو گئی، ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی بیاض کو کتابت سے سیاہ نہیں کیا، یعنی کبھی لکھا نہیں، جب کسی نے کوئی حدیث سنائی تو وہ میرے سینہ میں محفوظ ہو گئی اور اس کے دوبارہ سننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ [13]

اخذ حدیث میں احتیاط[ترمیم]

لیکن دوسروں سے حدیثوں کے لینے میں وہ بڑے محتاط تھے انھی لوگوں سے احادیث لیتے تھے جو علم کے ساتھ عقل و تقوی کے زیور سے آراستہ ہوتے، اس میں ان کا اصول یہ تھا کہ علم اسی شخص سے حاصل کرنا چاہیے ،جس میں زہد و عبادت اور عقل و دانش دونوں جمع ہوں، تنہا عقل یا تنہا تقویٰ رکھنے والا علم کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ [14]

حدیث میں وسعت علم[ترمیم]

حدیث میں ان کے علم کا دائرہ نہایت وسیع تھا، ان کا بیان ہے کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی جس سے میں بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں [15] اہل حجاز، بصرہ اور کوفہ تینوں علمی مرکزوں کے محدثین کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی حافظ نہ تھا [16] سنن کے بھی بڑے عالم تھے، مکحول کابیان ہے کہ میں نے شعبی سے زیادہ سنتِ ماضیہ کا عالم نہیں دیکھا [17] ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے کہ شعبی صاحب آثار تھے اور ابراہیم صاحب قیاس۔[18]

احتیاط فی الحدیث[ترمیم]

لیکن اس وسعتِ علم کے باوجود وہ خود روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے، زیادہ روایت کرنا پسند نہ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ گذشتہ صلحاء زیادہ حدیثیں بیان کرنا برا سمجھتے تھے،اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا، تو میں صرف محدثین کی متفقہ حدیثیں بیان کرتا۔ [19]

روایت بالمعنی[ترمیم]

لیکن روایت بالمعنی کو خلاف احتیاط نہیں سمجھتے تھے، یعنی روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے، ابن عون کا بیان ہے کہ شعبی حدیثیں بالمعنی روایت کرتے تھے۔ [20]

فقہ[ترمیم]

اگرچہ ان کو جملہ علوم وفنون میں یکساں درک حاصل تھا، لیکن ان کا خاص اور امتیازی فن فقہ تھا، اس میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ سمجھے جاتے تھے،ابو الحسن کہتے تھے کہ میں نے کسی کو شعبی سے بڑا فقیہ نہیں پایا،بعض علما تو انھیں اس عہد کے کل ائمہ پر ترجیح دیتے تھے،ابومجلز کہتے تھے کہ میں سعید بن مسیب، طاؤس ، عطاء حسن بصری اور ابن سیرین کسی کو بھی شعبی سے بلند مرتبہ فقیہ نہیں پایا۔ [21] ابراہیم نخعی جو خود بہت بڑے فقیہ تھے،ان کے تفقہ کے اتنے قائل تھے کہ جومسئلہ ان کو نہ معلوم ہوتا اس کے سائل کو شعبی کے پاس بھیج دیتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، انھوں نے لا علمی ظاہر کی،اسی درمیان میں شعبی گزرتے ہوئے دکھائی دیے، ابراہیم نخعی نے مستفتی سے کہا ان شیخ کے پاس جاکر پوچھو اور وہ جو جواب دین اسے مجھے بتاؤ ؛چنانچہ سائل نے جاکر ان سے دریافت کیا،انھوں بھی لا علمی ظاہر کی، نخعی کو یہ جواب معلوم ہوا تو انھوں نے کہا واللہ یہ فقہ ہے۔ [22]

ان کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں جو علوم نبوی کے حقیقی وارث تھے وہ مسندِ افتا پر بیٹھ گئے تھے،ابوبکر ندلی کا بیان ہے کہ ابن سیرین نے مجھے ہدایت کی تھی کہ شعبی کے دامن سے وابستہ رہو؛کیونکہ وہ صحابہ کی بڑی تعداد کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے۔ [23]

وفات[ترمیم]

امام شعبی کی وفات کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔
1: 109ھ، 2: 106ھ، 3: 103ھ[24]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن سعد:172)
  2. (تہذیب التہذیب:5/67)
  3. (ابن سعد:6/172)
  4. تذکرۃ الحفاظ، ج 1، ص 81
  5. ^ ا ب سیر اعلام النبلاء ج4ص485
  6. تذکرۃ الحفاظ ج1ص85
  7. (تذکرۃ الحفاظ:1/69)
  8. (شذرات الذہب :1/126)
  9. (تذکرہ الحفاظ:1/73)
  10. (ایضاً:72)
  11. (تہذیب التہذیب:5/62)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:1/171)
  13. (تذکرۃ الحفاظ:1/171)
  14. (تذکرہ الحفاظ:1/73)
  15. (ایضاً:77)
  16. (ایضا:۷۴) 
  17. (ابن سعد:177)
  18. (تذکرۃ الحفاظ:1/71)
  19. (ایضاً:172)
  20. (ابن سعد:6/174)
  21. (تذکرہ الحفاظ:1/70)
  22. (ابن سعد:6/174)
  23. (تذکرہ الحفاظ:1/171)
  24. سیر اعلام النبلاء ج4ص492